لوگوں  کی باتوں کے پیچھے نہ لگیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چڑیا گھر میں انتظامیہ نے ایک ریسرچ کی۔انہوں نے ایک پنجرے میں کچھ بندر قید کیے۔ ان لوگوں نے بندوں کے پنجرے کے اندر کیلوں کا ایک بڑا سا گچھا باندھ دیا۔ کیلوں کا گچھا باندھ کر انہوں نے وہاں ایک سیڑھی مضبوطی کے ساتھ باندھ دی۔ جہاں سے بندر بڑے آسانی کے ساتھ کیلوں تک پہنچ سکیں۔جب وہ لوگ بندوں کے پنجرے میں کیلے باندھ کر پنجرے سے باہر آئے۔ تو انہوں نے دیکھا کہ بندر فوراً سیڑھی پر چڑھ کر کیلے کھانے کے لیے بھاگے۔ جب بندر سیڑھی پر چڑھ کر کیلوں کے پاس گئے۔ تو انتظامیہ نے ان بندروں پر گرم گرم پانی ڈال دیا۔  اس طرح جب بھی کوئی بندر کیلے کھانے کے لیے وہاں جاتا تھا۔ تو وہ لوگ بندروں پر گرم پانی ڈالتے تھے۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی بندر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تھا۔

ان میں ایک وقت ایسا آیا کہ سب بندر گرم پانی اور بار بار ناکام ہونے کی وجہ سے ڈرے ہوئے تھے۔ اس لیے جب بھی کوئی بندر ہمت کر کے ان کیلوں تک جانے کی کوشش کرتا تھا۔ تو دوسرے بندر ان کو مارنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کو پتا تھا۔ کہ جب یہ بندر بھی کیلے کھانے کے لیے وہاں تک جائے تو ان پر بھی گرم گرم پانی ڈالا جائے گا۔ جس کی وجہ سے سب بندروں کو بھی اس کے ساتھ تکلیف اُٹھانا پڑے گی۔

چڑیا گھر کی انتظامیہ نے پنجرے سے ایک دو بندروں کو تبدیل کیا کہ دیکھتے ہیں۔ اس پنجرے میں نئے آنے والے بندروں کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے۔ جب نیا بندر اس پنجرے میں داخل کیا گیا۔ تو انہوں نے دیکھا کہ نیا آنے والا بندر پنجرے میں داخل ہوتے ہی اس نے  کیلے کھانے کے لیے سیڑھی کی طرف جانے کی کوشش کی۔ لیکن دوسرے بندروں نے اس بندر کو کیلوں تک جانے سے روک دیا تھا۔ جب بھی نیا آنے والا بندر کیلوں کی طرح جاتا تو سب بندر مل کر اس کو مارنا شروع کر دیتے تھے۔

اس کے بعد انتظامیہ نے پھر ایک بندر کو وہاں سے نکال کر دوسرے بندر کو اس پنجرے میں داخل کیا۔ تو اس نئے آنے والے بندر نے بھی کیلے کھانے کے کوشش کی۔ لیکن وہاں موجود بندروں نے ان کو وہاں تک نہ جانے دیا۔ جو بندر اس سے پہلے نیا آیا تھا۔ وہ بھی پرانے بندروں سے مل کر نئے آنے والے بندر کو روکنے میں لگا ہوا تھا۔ اس کو خود بھی معلوم نہیں تھا۔ کہ میں اس نئے آنے والے بندر کو کیلوں تک جانے کے لیے کیوں روک رہا ہوں۔  وہ نیا آنے والا بندر بھی اس بندوں  سے مار کھا کر تسلی سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔

اب ان لوگوں نے ان نئے بندروں کے علاوہ سب بندروں کو باہر نکال کر ان کی جگہ نئے بندر ڈال دیئےتھے۔ لیکن ان دوبندروں نے ان سب بندوں کو اس کیلے کے گچھے کے پاس جانے سے روک دیتے۔ان دو بندروں کی بات مان کر وہ  نئے سب آنے والے بندر بھی اس کیلوں تک پہنچنے کی کوشش نہ کرتے تھے۔ کیونکہ ان دو بندروں نے سب بندوں کو اتنا ڈرا دیا تھا۔ کہ وہ ڈر کے مارے وہاں تک  نہیں جاتے تھے۔ اب تو انتظامیہ نے ان پر گرم گرم پانی بھی ڈالنا بند کر دیا تھا۔

ناظرین:۔ آج کل کے دور میں ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جب ہم کچھ نیا کرنے کو سوچتے ہیں۔ تواِدھر گرد کے  لوگ ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ وہ ہم کو یہ کہتے ہیں کہ یہ کام بہت ہی مشکل ہے۔ اس میں بے شمار لوگ ناکام  ہو چکے ہیں۔ تم اس کام کو کس طرح سے کر پاؤ گے۔ ہمارا تویہی مشورہ ہے۔ کہ تم اس کام کو نہیں کر سکوں گے۔ اس کام کو کرنے میں تمہارا وقت اور دولت ہی ضائع ہو گا۔

ہم اُن بندر کی طرح ہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کہ پہلے انتظامیہ نے ان پرگرم گرم پانی ڈالنا شروع کیا تھا۔ ان کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا تھا۔ کہ جو بھی بندر کیلوں کیطرف جائے گا۔ اس پر گرم پانی ڈالا جائے گا۔ یہ ڈر ان کے دل میں گھر کر گیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے آنے والے بندر کو وہاں تک نہ جانے دیا۔ ان کو ہر بات بات پر ڈراتے رہتے تھے۔

اِسی طرح کا حال ہمارا ہو چکا ہے۔ ہم بھی لوگوں کی بات سن کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ پر سوچنے لگ جاتے ہیں۔ کہ ہم سے پہلے کافی لوگ اس کام میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم کس طرح سے اس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم کوئی نیا کام شروع کرنے سے پہلے ہی گھبرانا شروع  کر دیتے ہیں۔ ہم اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں۔ کہ اس  بندے کی ناکام ہونے کی وجہ اس کی اپنی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔

اگر ہم کچھ بننا چاہتے ہیں۔ تو ہم کو لوگوں کی باتیں سنے بغیر محنت کرنی چاہیے۔ اگر ہم دوسروں کی باتوں پر عمل کرنا  شروع کر دیں گے۔ تو ہم کبھی میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہم کو بغیر کسی ڈر اور لوگوں کی باتیں  سنے بغیر کام کرنا چاہیے۔ جب کام شروع کر لیں۔ تو رات دن محنت کریں۔ مجھے پوری امید ہے کہ جو انسان رات دن محنت کرتا ہے۔ تو وہ ضرور کام ہو جاتا ہے۔