درویش کی حکمت

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک باپ نے اپنے لاڈلے بیٹے کو کہا کہ بیٹا فلاں جگہ ایک بزرگ رہتا ہے۔ آپ اس کے پاس جاکر اس سے یہ دریافت کرو کہ خوش کیا ہوتی ہے؟۔ خوشی کو حاصل کس طرح سے کیا جاتا ہے؟۔ وہ لڑکا اپنے گھر سے نکلا اور اس نےکافی دن تک مسلسل سفر جاری رکھا۔ آخرکار وہ اس بزرگ کے پاس چلا گیا۔ جو اس کے باپ نے اس لڑکے کو بتایا تھا۔ جب وہ اس جگہ گیا۔تو اس نے ایک بہت ہی بہترین اور خوبصورت محل کو دیکھا ۔ وہ لڑکا بھی اس محل میں چلا گیا۔ اس نے محل کے اندر جا کر دیکھا کہ محل کے  اندر موسیقی لگی ہوئی تھی۔ بہت سے لوگ وہاں جمع تھے۔ جب وہ سفر کرکے گھر سے نکلا تھا۔ اس کے ذہن و گمان میں یہ سوال چل رہا تھا۔ کہ میں جس جگہ بھی جا رہا ہوں۔ وہاں ایک بوڑھا سا آدمی ہو گا۔ جو مجھے دانائی کی باتیں بتائے گا۔ جب اس نے محل کے اندر جا کر دیکھا تو ہر طرف میزوں پر کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی تھی۔ وہ بھی ایک میز پر بیٹھ گیا۔ لوگ اپنی مستی میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی کہانیاں ایک دوسرے کو سنا رہا تھا۔

اتنے میں اس مجمع میں ایک بزرگ داخل ہوا۔ اس بوڑھے نے اس لڑکے کو پوچھا : اے لڑکے! کیا تم ابھی آئے ہو؟۔ اس لڑکے نے جواب دیا۔ جی بابا جی: میں یہاں نیا آیا ہوں۔ میرے ابا جان نے مجھےآپ کے پاس بھیجا ہے۔ تاکہ میں خوشی کا مفہوم آپ سے سیکھ کر گھر واپس جاؤ۔ اس بزرگ نے کہا: اے لڑکے! میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ دیکھو! یہاں کتنے لوگ آئے ہوئے ہیں۔سب آپ کی طرح ہی کچھ نہ کچھ سبق حاصل کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔  تم ایک چمچہ لو۔ اس میں زیتون کا تیل ڈالو۔ اس کےبعد تم اس چمچے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لو۔ اس چمچے سے تیل کو نیچے نہیں گرنے دینا۔  اس چمچے کو ہاتھ میں لے کر میرے خوبصورت محل کا نظارہ کر لو۔ جب تم سارا محل کا نظارہ کر لو گے۔ تو واپس میرے پاس آجانا۔

لڑکا دانش مند آدمی کی بات سننے کے بعدمحل کا چکر لگانے کے لیے چلے گیا۔ اس نے میز سے ایک چمچہ لیا۔ اس نے چمچے میں زیتون کا تیل لیا۔ پھر سیڑھیاں چڑھا کر محل کے اوپر  والے پوریشن دیکھنے کے لیے جارہا تھا۔ وہ لڑکا سیڑھیاں چڑھ کر اِدھر اُدھر سب محل دیکھ کر پھر اُسی جگہ واپس آگیا۔ جہاں سے اس نے چمچہ اُٹھایا تھا۔بزرگ نے کہا: کہ اے لڑکے بتاؤں! تم نے کیا دیکھا ہے۔ لڑکے نے بزرگ کو کہا: کہ مجھے بس ان قطروں کی فکر لگی رہی تھی۔ کہ میں کہیں تیل کے قطرے زمین پر نہ گِرا دو۔ میں محل میں گھوما ضرور ہوں۔ لیکن میں نے کسی چیز کی طرف بھی خاص توجہ نہیں دی ہے۔

اس بزرگ نے اس لڑکوں کو کہا: کہ ایک بار پھر سے جاؤ۔ پورے محل کو دیکھ کر آؤ۔ کہ میں نے محل کو اتنے اچھے طریقے سے تیار کیا ہوا ہے۔ میں نے دنیا کی ہر چیز اس محل میں  سجائی ہوئی ہے۔ بیٹا جاؤ! ایک بار سارے محل کا نظارہ کر کے آؤ۔ لڑکا پھر سے گیا ۔ اس نے سارے محل میں ہر چیز کو غور سے دیکھا ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ واپس آیا۔اس بزرگ نے پوچھا؟ بتاؤ بیٹا! آپ نے محل  میں کیا کیا دیکھا ہے۔ لڑکے نے کہاکہ آپ کا محل تو بہت ہی شاندارہے۔ آپ نے تو دنیا کی ہر چیز اس میں سما دی ہے۔ اس میں  باغ ،پھول ، پرند، چرند اور بہت ہی چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اس بزرگ نے کہا: کہ  تیرا چمچ کہاں ہے۔ لڑکے نے جواب دیا کہ چمچ یہ ہے۔ بزرگ نے کہا کہ اس میں دیکھو تیل ہے یا پھر کہیں پھینک آئے ہو۔ لڑکے نے جواب دیا: کہ میں نے محل میں سب کچھ دیکھا ہے۔ کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ محل میں ہر چیز کو غور سے دیکھ کر آؤ۔ اس لیے مجھے خبر ہی نہ تھی کہ میرے ہاتھ میں چمچ  بھی ہے یا پھر نہیں۔

اس پر اس دانشمند نے کہا کہ بیٹا میری بات غور سے سنو کہ خوشی کیا ہے۔ تم کو اس چمچ سے قطرہ بھی نیچے نہیں گرنے دینے تھے۔ تم کو محل دیکھنے کے ساتھ ساتھ چمچ میں تیل کا بھی خیال رکھنا تھا۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ ہماری زندگی کا یہی مقصد ہے۔ جب کوئی بھی انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے۔ تو وہ بہت ہی خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔

پیارے دوستو! اس کہانی میں سبق یہ تھا۔ کہ چمچ میں دو قطرے انسان کا اپنا ایمان تھا۔ یہ ایمان ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کو دنیا میں بھیج دیاتھا ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بہت ہی حسین و جمیل بنایا ہے۔ دنیا میں ایسی چیزیں بنائی ہیں۔ جو انسان کی توجہ اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں۔ جب یہ دنیا انسان کے دل میں بس جاتی ہے ۔تو ہمارا ایمان جاتا رہتا ہے۔ انسان دنیا میں جنتا زیادہ دھیان دے گا۔ اس انسان کا ایمان اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا۔جب انسان کے دل میں ایمان گھر کرجاتا ہے ۔تو وہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی فکر رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو عبادت میں مشغول پا کر خوش رہتا ہے۔جو انسان دنیا اور ایمان میں توازن برقرار رکھ لیتا ہے۔ اس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جاتی ہے۔ تو اس انسان کو سمجھ آ جاتی ہے۔  کہ خوشی کیا ہوتی ہے۔

دنیا مومن کے لیے قید خانہ او ر کافر کے لیے جنت ہے۔