حضرت خضر  علیہ السلام اور سلطان محمود غزنوی کی ملاقات

سلطان محمود غزنوی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے لیے بہت ہی بےتاب رہتے تھے۔ ایک  دن سلطان محمود غزنوی اپنے دربار میں بیٹے ہوئے تھے۔ وہاں بے شمار لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان لوگوں میں سلطان محمود غزنوی کے وزیر، مشیر اور اس علاقے کے بڑے بڑے سردار وہاں موجود تھے۔ سلطان محمود غزنوی نے سب لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے کہا: کہ اس مجمع میں کوئی ایسا اللہ کا بندہ ہے۔ جو میری ملاقات اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت خضر علیہ السلام سے کروا دے۔ سارے مجمع میں چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجمع کے پیچھے بیٹا ہوا۔ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا۔آقا: میں آپ کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے کروا سکتا ہوں۔ وہ آدمی حالت سے غریب دیکھائی دے رہا تھا۔

سلطان محمود غزنوی نے اس آدمی کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ تم کیسے مجھ کو حضرت خضر علیہ السلام سے ملا سکتے ہو۔ وہ آدمی بولا: آقا! اس کام کے لیےمجھے بہت ہی محنت کرنی پڑے گی۔ مجھ کو سمندر اور دریاؤں پر جا کر کئی مہینوں تک چلہ کاٹنے پڑیں گے۔ اس آدمی کی بات سن کر سلطان محمود غزنوی نے حکم دیا :کہ میرے طرف سے تم کو اجازت ہے۔ اس بندے نے عرض کی۔ آقا! میری ایک کچھ شرط ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے دریافت کیا۔ تمہاری کون سی شرائط ہیں؟۔ اس بوڑھے  شخص نے کہا :آقا!  میں بہت ہی غریب اور کمزور ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں 6 ماہ کا چلہ کاٹنے کے لیے سمندر کے کنارے جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان ان کو  دے جاؤ۔  میری یہ شرط ہے کہ میں جب تک سمندر کے کنارے چلہ کاٹنے کے لیے بیٹھوں ۔ تو میرے گھر والوں کو کھانے پینے کا سامان حکومت کے خزانے سے ادا کیا جائے۔ سلطان محمود غزنوی نے بوڑھے کی شرط کو قبول کرتے ہوئے حکم دیا۔ کہ اس بوڑھے کے گھر میں کھانے پینے کا سامان پہنچا دیا جائے۔آقا کے حکم کے مطابق اس بوڑھے کےگھر میں کھانے پینے کے لیے سامان پہنچا دیا گیا۔

اس کے بعد اس بوڑھے نے کچھ ضروریات کا سامان لیا اور سمندر کے کنارے چلہ کاٹنے کے چلا گیا۔ اس بوڑھے کے جانے کے بعد بھی سلطان محمود غزنوی اس بوڑھے کے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا سامان بھجواتا رہا۔ اس طرح سے گھر والوں کی اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ جب بوڑھے کو چلہ کاتٹے ہوئے 6 ماہ ہو گئے ۔ تو سلطان نے بوڑھے کو بلا کر پوچھا: تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا۔ اس کا کیا بنایا ہے؟۔ اس آدمی نے کہا : کہ آقا! میں سمندر پر پڑھائی کر رہا تھا۔ کہ میرے سے کچھ وظائف اُلٹے سیدھے پڑھے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے میں اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ میری آپ سے درخواست  ہے ۔ کہ مجھے 6 مہینے کا وقت مزید دیا جائے۔ بوڑھے کی بات سن کر سلطان نے حکم دیا۔ کہ میں آپ کو 6 مہینے کا وقت اور دینے کو تیار ہوں۔ اس بار میرے سے کوئی بہانہ نہ لگانا۔ بوڑھے نے کہا: آقا! میں دن رات محنت کرو گا۔  مجھے پوری امید ہے کہ اس بار میں کامیاب ہو جاؤں گا۔

اس کے بعد بوڑھا شخص سمندر پر پڑھائی کرنے(چلہ کاٹنے) کے لیے پھر چلا گیا۔ جب 6 مہینے پورے ہوئے ۔ تو سلطان نے اس بوڑھے کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ جب اس بوڑھے کو سمندر کے کنارے سے پکڑ کر سلطان محمود کے دربار میں لایا گیا تھا۔ تو اس وقت سلطان محمود غزنوی کے دربار پر لوگوں کا بہت بڑا مجمع جمع ہوا تھا۔ ان لوگوں میں سب سے پیچھے ایک نورانی چہرے والا ایک بزرگ بھی موجود تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے بوڑھے (چلہ کاٹنے والے) سے پوچھا: بابا جی! جس مقصد کے لیے تم نے 1 سال لگایا ہے۔ اُس کام کا کیا بنا کر آئے ہو۔ بوڑھے شخص نے عرض کی: آقا! اس کام کے لیے مجھے مزید وقت دیا جائے۔ بوڑھے کی بات سن کر سلطان محمود غزنوی نے اونچی آواز سے کہا: یہ بوڑھا مجھے  دھوکا دے رہا ہے۔ اس نے میری بات کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ یہ جھوٹ بول رہا ۔اس بوڑھے کو جس کام کے لیے بھیجا تھا۔ اس کام کو  کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

بادشاہ نے اپنے ایک وزیر سے مخاطب ہو کر کہا :کہ تم بتاؤ! اس بوڑھے کو یہ جھوٹ بولنے کی کیا سزا دی جائے۔ وزیر نے بلند آواز سے چلاتے ہوئے کہا: بادشاہ سلامت! ایسے جھوٹے اور فریبی بندے کی گردن جسم سے الگ کر دینی چاہئے۔ کیونکہ اس نے ہمارے ساتھ بہت ہی بڑا جھوٹ بولا ہے۔دربار میں بیٹھے ہوئے نورانی اور خوبصورت چہرے والے بزرگ نے دُور سے ہی پکارا: اس وزیر نے بالکل سچ بات کہی ہے۔ پھر بادشاہ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے وزیر سے دریافت کیا۔ کہ اس کی کیا سزا ہونی چاہیے۔ دوسرے وزیر نے  جواب دیا: بادشاہ سلامت! اس غریب اور جھوٹے بوڑھے نے ہم سب کو دھوکا میں رکھا ہے۔میرے خیال سے  اس کو بھوکے کتوں کے آگے پھینک دینا ہی بہتر ہے۔ تاکہ کتے اس بوڑھے کے  جسم کو نوچ نوچ کر کھا جائیں۔ مجمعے  میں بیٹے ہوئے نورانی اور حسین و جمیل چہرے والے بزرگ نے اس بار بھی وہی الفاظ پکارے۔ کہ یہ وزیر سچ کہہ رہا ہے۔ سلطان محمود غزنوی اس نورانی چہرے والے بزرگ کی بات سن کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ  سوچ رہے تھا کہ بزرگ کون ہے؟۔ اس بار سلطان محمود غزنوی نے اپنے سب سے پیارے اور ذہین وزیر جو بادشاہ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے ایاز کی رائے لی۔ کہ تم اس بارے کیا کہتے ہو۔ ہم اس بوڑھے کو کیا سزا دیں۔ اس نے اپنا اور ہمارے بہت ہی قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے۔ ہم کو دھوکے اور فریب میں رکھا ہے۔

ایاز نے سلطان محمود غزنوی کو بڑے تحمل اور احترام سے عرض کیا: آقا! ایک سال اس بوڑھے کے بچے سرکار کے غلے سے کھاتے رہے۔ ان بچوں کے کھانے سے آپ کے غلے میں کوئی کمی  نہیں آئی۔ بلکہ یہ بچے جب کھانا کھاتے ہوں گے۔آقا! ان کی زبان سے آپ کے لیے دعائیں ہی نکلتی ہوں گی۔ بات رہی اس بوڑھے کی۔ اس نے جو بھی جھوٹ  بولا ہے۔ اس کے جھوٹ بولنے سے آپ کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ آقا! میرا تو یہی مشورہ ہے کہ اس بوڑھے کو خدا کے لیے معاف کیا جائے۔ اگر ہم اس بوڑھے آدمی کو قتل کرتے ہیں۔ تو اس کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کےگھر والے بھی بھوک اور غم سے مر جائیں گے۔ مجمعے میں بیٹے ہوئے نورانی چہرے والے بابا جی نے فرمایا: ایاز وزیر ! درست فرما رہا ہے۔

سلطان محمود غزنوی نے نورانی چہرے والے بزرگ سے مخاطب ہو کر کہا : بزرگ جی!  میں نے تین وزیروں سے اس بوڑھے کی سزا کے بارے میں ان کی رائے لی ہے۔آپ  نے ہر بار ایک ہی جواب دیا ہے۔ کہ اس نے درست کہہ ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے۔ نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا: آپ کا پہلا وزیر قصائی تھا۔ اس کے آباؤاجداد اور ان کا کام ہی گلے کاٹنا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے ذہن کے مطابق اس کی سزا کے بارے رائے دی ۔ پھر آپ نے دوسرے وزیر کی رائے پوچھنا چاہا۔ دوسرے وزیر کا باپ بادشاہوں کے کتے نہایا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے کہا: اس بوڑھے کو کتوں کے آگے ڈال دیا جائے۔ کیونکہ  ان کے ذہن میں  بوڑھے کی سزا کے  لیے کتے  کے آگے ڈالنے سے بڑھ کر کوئی سزا ہی نہیں تھی۔جس حکومت میں بادشاہوں کے وزیر کے مشورے ہی ایسے ہوں۔ وہاں عوام نے بھوک سے ہی مرنا ہے۔

جب کہ آپ کا تیسرا وزیر ایاز سید زادہ ہے۔ سید زادوں کی بڑی شان و شوکت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدزادوں کو بڑا صبر اور حوصلہ عطا کیا ہوتا ہے۔ سید اپنا سارا کا سارا خاندان بھی شہید کروا کر بدلہ لینے کے بارے کبھی نہیں سوچتا : بزرگ کی بات سن کر بادشاہ اپنی کرسی  سے سیدکے احترام میں کھڑا ہو گیا۔

بادشاہ نے اپنے پیارے اور ذہین وزیرایاز سے بڑے ادب و احترام سے پوچھا: کہ ایاز آپ نے مجھے کبھی اس بارے نہیں بتایا کہ میں سید ہوں۔ بادشاہ کے پیارے دوست ایاز نے کہا :کہ بادشاہ سلامت! آج تک کوئی بندہ میرا راز ظاہر نہیں کر سکا۔ میں بھی آپ کو ایک راز کے بارے میں بتانے والا ہوں۔ آپ جس نورانی چہرے والے شخص سے باتیں کر رہے ہیں۔ یہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ یہی خدا کے پیغمبر حضرت خضر علیہ السلام  ہیں۔ اس طرح  سلطان محمود غزنوی کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام ہوئی۔

حوالہ:شبلی نعمانی کی کتاب"کلام شبلی" سے ماخوذہے۔