یہودیوں  کے جسم  سے  گندی بدبو کیوں آتی ہے؟

دنیا میں یہودیوں کی بہت زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔ یہودیوں میں بھی دوسرے مذہبوں کی طرح  نسلیں اورفرقے پائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں  چند فرقے اور نسلیں ایسی  ہیں۔ جس کے جسموں کی رنگت پیلی اور لال ہے۔ اس کے جسم کی رنگت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جو کپڑے بھی پہنتے ہوتے ہیں۔ وہ چنددن پہنے سے  گندے اور بدبو دار ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے اتنی بد بو آتی ہے کہ جو انسان ان کے پاس کھڑا ہوتا ہے۔ ان سے یہ بدبو برداشت نہیں ہوپاتی۔ ان کے جسموں کی بدبو اتنی تیز اور بُری ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک مرے ہوئے انسان کو کافی دن تک رکھا جائے، تو اس کی لاش سے آتی ہے۔ یہودی فرقے اور نسلوں کے لوگ اپنے آپ کو بہتر ظاہر کرنے کے لیے اچھی اچھی خوشبوؤں اور عطر  لگاتے ہیں۔ تاکہ دوسرے لوگوں کومتاثر کر سکیں۔کہ ہمارے جسموں سے بدبو نہیں آتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے جسموں کی بدبوں کو چھپانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کے جسموں سے بدبو آتی ہی رہتی ہے۔ یہودیوں کے بدبو دار نسلوں اور فرقوں نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس بیماری سے اپنی جان بچا لیں۔ لیکن وہ اس بدبو سے چھٹکارا پانے میں ہمیشہ ہی ناکام ہوئے ہیں۔

مفسرین کا کہنا ہے کہ جب یہ قوم کئی صدیوں پہلے دنیا میں رونما ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بڑے انعامات عطا کئے تھے۔ پھر یہ لوگ  بُرے کاموں میں پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی طرف بے شمار نبیوں کو معبوث فرمایا ۔تاکہ ان کو سیدھے راہ دیکھا سکیں۔ لیکن اس قوم نے اپنے نبیوں کی باتوں پر عمل نہ کیا۔ بلکہ ان لوگوں نے نبیوں کو صاف صاف انکار کر دیا کہ ہم تمہارے رب پر ایمان نہیں لائے گے۔ جب یہ قوم نافرمان بن گئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر سخت عذاب نازل کیا۔ جس کی وجہ سے یہ قوم تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے ہر دَور میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کے بعد کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودی پر ایک نبی معبوث فرمایا : جس نے یہودیوں کو ایک اللہ کو ماننے کا حکم دیا۔ اس پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک لشکر تیار کیا۔ کہ جو یہودی اللہ تعالیٰ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔جو قوم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اتر آئی تھی۔ یہ نیک لوگ ان کے پاس گئے۔ اس نبی نے ان یہودیوں کو فرمایا: کہ تم بُرے کام کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ ہم سب کو اسی کی عبادت کرنے چاہیے۔وہی سب کو پالنے اور رزق دینے والا ہے۔ لیکن یہودیوں کے اس لشکر نے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کو کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پیغمبر اس قوم کو اللہ تعالیٰ  کاحکم مسلسل کئی مدت تک دیتے رہا۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ ہی ٹام مٹول سے کام لیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس نبی کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں بھی کرنا شروع کر دیں تھیں۔

ایک دن اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی فرمانیوں کی وجہ سے ان پر طاعون کی بیماری کا عذاب نازل کر دیا۔ طاعون کی بیماری نے ہر طرف تباہی مچا کر رکھ دی۔ چنانچہ اس بیماری کی ڈر کی وجہ سے وہاں کے ستر ہزار لوگوں نے وہاں سے دوسرے شہر میں ہجرت کی۔ انہوں نے سوچا کہ جب تک ہمارے شہر میں طاعون کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں چلے جاتے ہیں۔ جب یہ بیماری ختم ہو جائے گی۔ تو ہم دوبارہ اپنے گھروں میں آ جائے گے۔ جب وہ لوگ دوسرے شہر میں جا کر رہائش پذیر ہو گئے۔ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ ان لوگوں  کی طرف نازل ہوا۔اس فرشتے نے اللہ تعالیٰ کے حکم سےایک بلند پہاڑی پر کھڑے ہو کر روز دار آواز نکالی جس کی وجہ سے ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔ وہ آواز اتنی خوفناک تھی۔ کہ جس جس کے کان پر بھی پڑتی گئی۔ وہ وہاں ہی بے ہوش ہوکر مر گیا۔

یہ سب لوگ صحت مند اور اچھے خاصے طاقت ور تھے۔ ان  میں سے کوئی بھی کسی بھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا۔ اس طرح وہ سب لوگ مر گئے ۔ ان کی لاشیں وہاں ہی پڑی رہ گئی۔ وہ لاشیں گل سڑ  گئیں۔ان سے بہت ہی بدبو آنے لگ گئی۔ ان لاشوں سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ دُور دراز کے علاقے  میں رہنے والے لوگ بھی اس بدبو سے تنگ آ گئے تھے۔ وہ بھی ہر وقت یہی بات سوچتے تھے۔ کہ اس بدبو سے کس طرح چھٹکارا پایا  جائے۔

چند دن گزرنے کے بعد  اس قوم کے نبی  کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے اپنی قوم کے بندوں کی یہ حالت دیکھی۔ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سےدعاکی: یااللہ ان قوم کو معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے حکم دیا :کہ ان لوگوں کی بوسیدہ ہڈیوں(لاشوں) کے قریب جاکر ان کو حکم دو۔ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہو جاؤں۔ جب پیغمبر نے ان لوگوں کی لاشوں کے پاس جا کر فرمایا کہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہو جاؤں۔  تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب لوگ زندہ ہو گئے تھے۔ یہ تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ستر ہزار مردہ لاشوں کو ایک ہی وقت میں زندہ کیا گیا تھا۔لیکن ان لوگوں کے جسم لال اور پیلے رنگ ہو گئےتھے۔ ان لوگوں  کے جسموں میں دوسری تبدیلی یہ آئی ۔ کہ ان کے جسموں سے بہت ہی زیادہ بدبو آنے لگ گئی ۔جسم کی بیماری کی وجہ سے ان کے کپڑے بہت ہی جلد پھٹ جاتے اور اس میں بدبو پیدا جاتی تھی۔جن کے اثرات آج تک یہودیوں  کی اس نسل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اچھا اور بہترین ظاہر کرنے کے لیے بہت ہی خوشبو  لگاتے اور اچھے اچھے لباس پہنتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان کے جسموں سے بہت جلد ہی گندی بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے اور  ان کپڑے پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی مردے کو چند دن کسی کپڑے میں رہنے سے ان سے بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ اسی طرح کی حالت یہودی کی اس نسل کے ساتھ پیش آتی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔"اے محبوب! کیا آپ نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ جو موت کے ڈر سے اپنے گھر وں میں سے نکلے وہ ہزاروں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ مر جاؤاور پھر انہیں زندہ کر دیا۔بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔مگر اکثر ناشکرے ہیں"۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 243)