ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی علاقے میں ایک شخص رہتا تھا۔ وہ شخص بہت ہی غریب اور لاچار تھا۔ اس کے پاس نہ تو مال  و دولت تھی اور نہ اس کی شادی ہوئی تھی۔ جب وہ کسی امیر فیملی کو دیکھتا تھا، تو وہ ان کی طرف دیکھ کر بہت ہی مایوس ہوتا تھا۔ اس کی خواہش تھی۔ کہ میں بھی ان امیروں کی طرح ہوتا ،میرے پاس بھی اولاد اور مال و دولت ہوتی۔ وہ امیروں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا۔ اے اللہ تعالیٰ! مجھے بھی امیر بنا دے۔تاکہ میں بھی امیروں کی طرح خوشحال زندگی کے مزے اُٹھا سکوں۔

لیکن اس کی دعاقبول نہ ہوتی تھی۔ وہ جہاں کہیں بھی کسی اللہ والے کے بارے میں  سنتا تھا۔ تو اس کے پاس چلے جاتا تھا۔ کسی پرہیز گار اور مقتی آدمی نے اس کو کہا: کہ تمہاری دعا! حضرت حضرت علیہ السلام کے ذریعے قابلِ قبول ہو گی۔ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، کہ تمہاری ملاقات اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت خضرت علیہ السلام سے ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی دعا قبول فرمائی۔ ایک دن اس بندے کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی گئی۔ وہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت خضر علیہ السلام سے ملا، تو اس کو بہت ہی خوشی ہوئی۔ کہ اب میں حضرت خضر علیہ السلام کی دعا سے امیر بن جاؤں گا۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت خضر علیہ السلام سے درخواست کی۔ اے اللہ تعالیٰ کے نبی میرے حق میں دعا فرما دیجئے۔ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال کر دے۔ تاکہ میں بھی امیروں کی طرح خوشحال زندگی بسر کر سکوں۔ تاکہ مجھے ہر طرح سے آرام و سکون میسر ہو جائے۔

حضرت حضرت علیہ السلام نے اس بندے کو فرمایا: اے خدا کے نیک بندے! یہ دنیا آرام وسکون کی جگہ نہیں ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی ایسا بندہ نہیں ہے۔  جو دنیا میں  خوشحال ہو کر زندگی بسر کر رہا ہو۔ اگر تم ضد ہی کرتے ہو، تو مجھے بتاؤ! کہ تم کس شخص جیسا بننا چاہتے ہو؟۔میں خدا سے  تمہارے لیے  ویسا ہی بننے کے لیے دعا کر تا دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے! کہ اللہ تعالیٰ تم کو میرے دعا کے ذریعے اس بندے جیسا بنا دے۔  وہ شخص کسی ایسے بندے کی تلاش میں نکل پڑا۔ جس شخص کی طرح  وہ زندگی بسر کرنا چاہتا تھا۔ وہ شخص کسی ایسے بندے کی تلاش میں نکل پڑا۔ جس کے پاس دنیا کی ہر سہولت  (بیوی،بچے، مال و  دولت، بنگلہ وغیرہ) ہو ۔وہ شخص کئی دن تک ایسے بندے کی تلاش کرتا رہا۔ جس کے پاس مال ودولت بے شمار ہو۔ اس کو کوئی بھی پریشانی اور غم بھی نہ ہو۔ کئی دن  پھرنے کے بعد اس کو ایک ایسا شخص نظر آیا۔ جو اس بندے کی نظر میں امیر  تھا۔ اس کی بیوی اورولاد بھی تھی اور اس بندے کو کوئی پریشانی بھی نہیں تھی۔

ایک دن وہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تشریف لایا۔ اس نے آپ علیہ السلام سے کہاں کہ فلاں علاقے میں فلاں نامی شخص ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی اس بندے کی طرح بن جاؤں۔ اس شخص نے عرض کی! اے للہ کے نبی! آپ علیہ السلام میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ کہ اللہ تعالیٰ مجھے فلاں بندے کی طرح سب کچھ(بیوی،بچے، مال و دولت) نواز دے۔

اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت خضر علیہ السلام نے اس شخص سے فرما: کہ تم جو کچھ دیکھ کر آئے ہو۔ وہ سب کچھ تم کو بہتر لگ رہا تھا۔ لیکن آپ اس سنار کی ذاتی زندگی سے واقف نہیں ہو۔ تم ایک بار اس بندے کے پاس جاکر اس سے دریافت کر کے آؤ۔ کہ کیا تم اپنی زندگی سے خوش ہو۔ یا پھر تم کو بھی کوئی غم اور پریشانی ہے۔ تم ایک بار اس بندے کی زبانی اُس کی حالاتِ زندگی سن آؤ۔ پھر میں اللہ تعالیٰ سے ضرور دعا کر وں گا۔یہ اللہ کا نیک بندہ! اس سنار کے پاس اُس کی ذاتی زندگی کے بارے دریافت کرنے کے لیے پہنچ گیا۔

اِس بندے نے اپنے بارے سنار کو سب کچھ بتا یا ۔ اس کی باتیں سن کر سنار نے اِس بندے  کو کہا: کہ میری تو ہر وقت یہی دعا ہوتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ مجھ جیسی زندگی کسی بھی بندے کو عطا نہ کرے۔ سنار کی زندگی  کے بارے سب کچھ سن کر وہ شخص بہت ہی حیرت زدہ ہوکر پوچھنے لگا؟۔ کہ اے امیر بندے! تیرے پاس دنیا کی ہر چیز موجود ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟۔ اس بندے نے اپنی ساری بیتی زندگی کی کہانی سنا دی۔  سنار نےنیک بندے سے کہا : کہ میرے پاس کسی چیزکی کمی نہیں ہے۔ میرے پاس مال و دولت، بنگلہ ،بیوی سب کچھ ہے۔ لیکن یہ سب کچھ پاس ہونے کے باوجود مجھے رات بھر نیند نہیں آتی ہے۔ میں بہت ہی پریشان رہتا ہوں۔ سنار نے کہا: کہ میری شادی ہوئی کو چند دن ہی گزرے تھے۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔کہ میری بیوی کو سخت بیماری نے آ لیا۔ میں نے دنیا کے ہر حکیم اور طبیب سے اپنی بیوی کا علاج کروایا، لیکن اس کی صحت ہر روز کمزور ہوتی ہوئی ہی نظر آرہی تھی۔ ایک دن میں اور میری بیوی تنہا بیٹھےہوئے تھے۔ کہ میری بیوی نے مجھے روتے ہوئے کہا: کہ مجھے تو ایسا لگتا ہے۔ میں بہت ہی جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گی۔ میرے مر جانے کے بعد تم کوئی اچھی ہی عورت تلاش کر کے اس سے دوسری شادی کر لینا۔ میں اپنی بیوی سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔ میں نے کہا: کہ اللہ تعالیٰ تم کو صحت یابی عطا فرمائے۔ میں تیرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن میری بیوی مجھے بیماری کی حالت میں یہی الفاظ کہتی رہی کہ تم دوسری شادی کر لینا۔ میں نے اپنی بیوی کو یقین دہانی کرنے کے لیے اپنا نفس ہی کاٹ ڈالا۔ اس دن کے بعد میں نامرد ہو گیا۔ جس دن سے میں نامرد ہوگیا تھا۔ تو اس دن کے بعد میری بیوی دن بہ دن صحت یاب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالکل ہی صحت یاب ہو گئی تھی۔

ایک دن ہم دونوں تنہائی میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ کہ میری بیوی نے مجھے کہا : کہ اب تم نامرد ہو چکے ہو۔ تم میرے کسی کام کے نہیں رہے ہو۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا: کہ ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے۔  کہ اس کا خاوندبیوی کی جنسی خواہشات کوپوری کرے۔ میرا آپ کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ کیونکہ تم تو نامرد ہو چکے ہو۔ تم میری جنسی خواہش کس طرح سے پوری کرو گے؟۔ اس کے بعد میری بیوی نے غیر مردوں کے ساتھ بدکاری کرنا شروع کر دی۔ میری بیوی میرے سامنے ہی گھر میں موجود نوکروں اور غیر مردوں کے ساتھ بدکاری کرتی رہتی  تھی۔ یہ سب اولاد جو تم کو اس محل میں نظر آ رہی ہے۔ وہ میری نہیں بلکہ میری بیوی نے حرام کی اولاد پیدا کی ہے۔ جس میں سے میری ایک بھی نہیں ہے۔ کیونکہ میں تو نامرد بن ہوگیا تھا۔ مجھے یہ سب کچھ آپ کو بھی بتاتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے۔ آپ کے دل میں بھی یہی آئے گا۔ کہ میں جس انسان سےباتیں کر رہا ہوں۔ کیا یہ نامرد ہے۔

میں نے اپنی بیوی کے پیارومحبت میں یہ سب کچھ کیا تھا۔ کہ میری بیوی کو ذرا بھی میرا احساس نہیں ہوا تھا۔ کہ یہ سب کچھ میرے خاوند نے میرے لیے کیا تھا۔ غیرمردوں سے  بدکاری کر کے میری بیوی مجھے نامرد ہونے کا صلہ دے رہی ہے۔ یہ سب مال و دولت، محل دنیا کی تمام سہولیات میرے کس کام کی ہیں۔ میرے پیارے دوست! میں  بہت ہی دکھی زندگی بسر کر رہا ہوں۔

اس کی داستان سننے کے بعد وہ اللہ کا نیک بندہ سیدھا حضرت خضر علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا۔ اے اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام ! مجھے اس بندے کی طرح نہیں بننا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ کہ جو میرے حق میں بہتر ہے ۔اللہ تعالیٰ مجھے وہی عطا کرے ۔جو میرے حق میں بہتر ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس بندے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے اس بندے کو ایک کامل ولی بنا دیا ۔  (دین و دنیا تاریخ النجات: صفحہ 270، مالداری اور غریبی: صفحہ 17)

اس کہانی سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے ۔ کہ کسی کی ظاہری زندگی کو دیکھ کر ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ہم کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جس حال میں بھی رکھا ہے۔ یہ اس کا کرم ہے۔ ہم کو کبھی بھی کسی کی ظاہری زندگی دیکھ کر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی بندے کے پاس دوسرے بندے کی ذاتی زندگی کے بارے مکمل معلومات نہیں ہوتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ یا اللہ ہم کو وہ کچھ عطا کر جو ہمارے حق میں بہتر ہے۔