وہ کام کرو جو تمہیں پسند ہے

انسانی زندگی کی پرُلطف مشکوں میں ایک مشک اپنا حقیقی مقام تلاش کرنا ہے۔ وہ کام یاکوئی پیشہ جو آپ کے لیے کوئی معنی رکھتا ہو۔ اگر آپ بھی کوئی ایساکام کر رہے ہیں۔ جو آپ کو پسند نہیں ہے۔ تو آپ اپنے آپ کو ضائع کررہے ہیں۔میں آپ کو ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کرتا ہوں۔ جس نے اپنی زندگی کے 75سال ضائع کر دیئے ۔لیکن اُس عورت نے زندگی کے آخری سالوں میں اپنے ٹیلنٹ پر  کام کیا۔ تو اس سے اُس کی زندگی بدل گئی۔ لہٰذا آپ بھی اپنی زندگی کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتے ہو۔ تو اپنے کام کرتےوقت اپنی پوری توجہ کام میں لگا لو۔وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ جو اپنا کام پوری توجہ اور لگن کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں ۔ کہ ان کو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا ۔ کہ انہوں کو کتنا وقت کام کرتے ہوئے ہو گیا ہے۔ دوستو! یہ اُس وقت ہی ہو سکتا ہے۔ جب  ہم اُس کام کو چنے گے۔ جس میں ہماری دلچسپی ہے۔ تو ہم تب ہی ایسا کر پائیں گے۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں۔ جس کو بڑی سے بڑی رقم بھی مل جائے۔ لیکن وہ اپنے کام سے توجہ نہیں ہٹاتے ہیں۔ وہ اپنے کام کو دل کی چاہت  سے کرتے رہتے  ہیں۔ ایم اے فوکس نے ایسے کام کو دل کی چاہت کہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ اس دنیا میں کچھ خاص کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ ایسا کرو۔ جو شاید صرف اور صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔ جب تک تم کام نہیں کرلیتے ہو۔ تب تک آپ کو سکون حاصل نہیں ہوتا۔

گرینڈ مومس کومعروف امریکی کردار حاصل ہے۔ وہ ایک کسان کی بیٹی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ پینٹگ کرے۔ طرح طرح کی تصوریں بنایا کرے۔ لیکن ان کے خاندان کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ خاندان نے اُس لڑکی کو سمجھایا کہ تم ایک کسان کی بیٹی ہو۔ لہٰذا ایک کسان کی بیٹی ہونے کے ناطے ایک کسان کے لڑکے سے شادی کرو۔ اپنے کسان خاندان کی کھیتوں میں جا کر مدد کرو۔ اُن کا ہاتھ بٹاؤ۔ تم کسان ہو۔ کھیتی باری کے علاوہ تم کچھ نہیں کر سکتی ہو۔ چنانچہ اُس نے ایساہی کیا بچے پیدا کیے۔ جب اس کی عمر 60 سال ہو گئی۔ تو وہ پردادی بن گئے۔ 75 سال کی عمر میں اس کا خاوند وصال کرگیا۔ ڈاکٹروں نے اُس کو کہا کہ تم بوڑھی ہو چکی ہو۔ تم آرام کرو۔ تم کو سخت آرام کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اُسی دوران اس نے سوچا کہ میں گھر میں فارغ ہی ہوتی ہوں۔ میں اپنے پرانے شوق کو پورا کرتی ہو۔ میں تصوریں تیار کرنا شروع کر دیتی ہو۔ میں پیٹنگ بنانا شروع کر دیتی ہوں۔ جس شوق کو میں نے جوانی میں اپنے سینے میں دفن کر دیا تھا۔ لہٰذا اس نے پیٹنگ کا سامان خریدا تصوریں بنانا شروع کر دیں۔ جب اُس کی عمر 100 سال ہوئی ۔ تو نیویارک کی نمائش میں اس کی تصوروں کی قیمت 1لاکھ ڈالر لگی۔ اُس وقت وہ سوچنے لگی کہ اتنا پیسہ میں اور میرا شوہر ساری زندگی خون پسینہ ایک کر کے بھی کما نہیں پائے۔ جو اُس نے اپنی ذہانت پر کا م کر کے چند سالوں میں کما لیے ہیں۔ دوستو! اس کہانی میں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب اُس نے دوسروں کی باتوں پر عمل کیا ۔ اپنے ٹیلنٹ کو نظر انداز کر دیا۔ تو اس نے اپنی زندگی کے 75 سالوں کو ضائع کر دیا۔ لیکن جیسے ہی اُس نے اپنے ٹیلنٹ پر کام کیا۔ تو وہ دنیا کی امیر ترین عورت بن گئی۔

لہٰذا آپ کو ہمیشہ وہی کام کرنا چاہیے۔ جو آپ کو پسند ہے۔ آپ یہ مت دیکھیں کہ لوگ کیا کہہ رہیں ہیں۔ ٹیلنٹ کیا ہے؟۔ آ پ کو اپنی فیلڈ کو پہچاننا ہو گا۔ کہ میں کس فیلڈ میں شوق اور لگن کے ساتھ کام کر سکتاہوں۔ جب تم اپنے ٹیلنٹ کو پہچان جاؤ گے۔ تو قدم قدم پر کامیابیاں تمہارا مقدر بن جائیں گیں۔ جب تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ تو تم دولت کے پیچھے نہیں بلکہ دولت تمہارے پیچھے ہو گی۔