اخروٹ Walnut

عمومی تعارف

اخروٹ کوعربی زبان میں جوز اور فارسی کی زبان میں گردگان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اس کا نباتاتی نام  Juglanssegiaہے۔ اس میوے کا تعلق Juglanssegia خاندان سے ہے۔ یہ ایک درخت پر لگتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس کو ایک خشک میوے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اخروٹ ہموار اور سخت خول کا میوہ ہے۔ اس کا مغز نہایت نرم اور چھلکا سخت ہوتا ہے۔ اخروت کا مغز اور چھلکا اپنی شکل لے لحاظ سے گول ہوتے ہیں۔

اخروٹ کی ایک قسم کاغذی اخروٹ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ جس کا چلکا بہت ہی نرم و نازل ہوتا ہے۔ اس کے  مغز میں ایک قسم کا فرازی تیل پایا جاتا ہے۔ اس  میں ہی زیادہ تیزی ہوتی ہے۔ اس لیے اخروٹ کو زیادہ کھا لیں ۔ تو منہ، زبان اور گلے میں سوزش ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اس کا چلکا خام حالت میں سبز ہ رنگ کا ہوتا ہے۔ جب یہ سخت ہوتا ہے۔ تو قدرتی طور پر اس کا رنگ تبدیل ہو کر خالی ہو جاتا ہے۔ جب کہ اخروٹ کا مغز سفید خاکی مائل ہوتا ہے۔ اس کا مغز چوب خشک لیکن بہت لذیذ ہوتا ہے۔

مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ تصریحات کے مطابق سب سے پہلے یہ درخت یونان، آرمینیا اور افغانستان کے علاقوں میں اُگایا گیا تھا۔ مگر اب دنیا کے بے شمار علاقوں میں اخروٹ کی کاشت کی جاتی ہے۔ اخروٹ پاکستان میں کوہ مری اور بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں بہت ہی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ اخروٹ ایران کے ملک میں بھی بے شمار اُگایا جا رہا ہے۔ اس کے درخت کی لمبائی ایک سو سے ایک سو بیس فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ یہ گولائی کے حساب سے بارہ فٹ سے اُٹھائیس فٹ تک گولائی میں ہوتا ہے۔ جب اخروٹ چالیس سال پرانا ہو جائے تو تب پھل دیتا ہے۔ پھلوں کو اکٹھا کرنے کے تین مہینے بعد اس کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ دودھیاں ہوتا ہے۔ جو تین مہینے کے بعد جم کر مینگ یا مغزبن جاتا ہے۔ اس کے مغز سے خارج ہونے والے تیل کو وارنش اور مصوری کے مسالوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اخروٹ کا درخت محض اس کا پھل حاصل کرنے کے لیے نہیں لگایا جاتا بلکہ لکڑی کی مصنوعات اور سامان بنانے کے لیے بھی اس کی لکڑی بہت زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ فرنیچر بنانے کے لیے اس کی لکڑی بہترین خیال کی جاتی ہے ۔

بندوقوں کے دستے اسی لکڑی سے بنائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ درخت بہت کم پایا جاتا ہے تاہم ملک کے مختلف حصوں میں اسے لگا یا گیا ہے۔ اخروٹ کو 4 مغز بھی کہتے ہیں۔

 اخروٹ کے غذائی اور کیمیائی اجزا

اخروٹ کے مغز میں حیاتین الف، حیاتین بے اور حیاتین ج کی کچھ مقدار کے علاوہ دیگر معدنی اجزا اتنا فولاد، تانبہ، فاسفورس، کو بالٹ میگنیشیم ، اور سوڈیم جیسے قیمتی کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں جو انسانی بدن کی پرورش اور تعمیر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

اخروٹ میں موجود فاسفورس دماغ کی تقویت اور تندرستی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اخروٹ کے مغز کی ساخت اور بناوٹ بھی انسانی دماغ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے، اس لیے اہل علم کا خیال ہے کہ دماغی امراض کے خاتمے اور دماغ کو طاقت ور اور تو انا بنانے میں اخروٹ اساسی اہمیت رکھنے والا میوہ ہے۔

اخروٹ کے طبی افعال و خواص

مزاج کے اعتبار سے اطباء کے نزدیک اخروٹ گرم ہے ۔ گرمی اور بلغم کو بڑھاتا ہے۔ طبیعت کو نرم کرتا ہے۔ اعضائے رئیسہ اور باطنی خواہشوں کو قوت فراہم کرتا ہے۔ اس کا بھونا ہوا مغز کھانسی کے لیے مفید ہے۔ ایسی کھانسی کے لیے جو سردی کی وجہ سے ہو خصوصاً مفید ثابت ہوتا ہے۔ مجد و طب، حکیم انقلاب، نظریہ مفرد اعضاء کے بانی حکیم صابر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق اخروٹ کا مزاج گرم دوسرے درجے میں اور خشک پہلے درجے میں ہے۔

بعض اطباء اس کے روغن کی وجہ سے اخروٹ کو گرم تر بھی لکھتے ہیں لیکن یا درکھیں کہ گرم تر چیز سے منہ، زبان اور گلے میں سوزش نہیں ہو سکتی۔ اس لیے یہ میوہ گرم خشک ہے۔ ان کے مطابق اخروٹ غدی عضلاتی یعنی غدی میں تحریک، عضلات میں تحلیل اور اعصاب میں تسکین پیدا کرتا ہے۔ کیمیاوی طور پر خون میں صفرا اور حرارت پیدا کر کے حرارت غریزی کی معاونت کرتا ہے۔ اس لیے جوانی کا محافظ ہے اور اعادہ شباب میں خصوصیت سے مفید ہے۔ انسانی جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضا کو تقویت دیتا ہے۔ روح اور نفس کی قوت کا باعث بنتا ہے۔ صالح حرارت کی پیدائیش کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے اور جسم کو فربہ بنانے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

معدے، مثانے اور آنتوں کو تقویت دیتا ہے اور آنتوں اور معدے کے لیے عمدہ خواص کا حامل میوہ ہے ۔ اخروٹ عورتوں میں دودھ اور مردوں میں مادہ منویہ کی تولید کا باعث بنتا ہے۔ رحم کو تقویت دیتا ہے، قوت باہ کو تحریک دیتا ہے اور حیض کو جاری کر کے باقاعدہ بناتا ہے۔ اخروٹ دوائے غذائی ہے اور اس میں چکنائی شامل ہے۔ اس لیے اس میں حرارت پیدا کرنے کے دو خصائص پائے جاتے ہیں اول یہ خود غدد میں تحریک دے کر حرارت پیدا کرتا ہے ، جب کہ دوسری جانب اس کے غذائی اجزا حرارت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہ حرارت انسانی وجود کی نشو ونما کا باعث بنتی ہے۔

گردے، مثانے اور جگر کی کمزوری کو رفع کر کے جسم میں حرارت اور قوت پیدا کرتا ہے۔ اس کا اثر دل اور دماغ پر خاص طور پر محسوس ہوتا ہے۔ بعض اطبا ادویہ اور اغذیہ کو جسم میں موجود اعضاء کے ساتھ مشابہت کی بنا پر ان کے خصوصی افعال و اثرات کو انہی کی مناسبت سے بیان کرتے ہیں ۔ ان اطباء کا خیال ہے کہ چوں کہ اخروٹ اور خاص طور پر اس کے مغز یا گودے کی شکل بالکل دماغ کے ساتھ ملتی ہے اس لیے اخروٹ خصوصیت کے ساتھ مقوی دماغ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ غدی تحریک کی وجہ سے اور حار غریزی ہونے کی وجہ سے دماغ کے غدی پردے میں تحریک دینے سے دماغ اور اعصاب کے لیے اخروٹ بے حد مقوی بن جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ معدے میں ملین اور بھوک لگانے والے اثرات کو جنم دیتا ہے۔ گردوں کو تقویت دینے کی وجہ سے تقویت باہ کے لیے بھی خصوصیت سے مفید ہے۔ اپنے اٹھی خصائص اور اثرات کی وجہ سے خواتین کے لیے بھی اخروٹ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے جسم میں خون پیدا کرتا ہے، خون کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ پستانوں میں تناؤ پیدا کر کے ان میں خوبصورتی رعنائی اور اٹھان پیدا کرتا ہے۔ ایام ماہواری کو با قاعدہ بناتا ہے۔ سیلان الرحم اور لیکور ہے کو ختم کر دیتا ہے۔ عورتوں میں ایک نئی زندگی اور جوانی پیدا کرتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عورت کے رحم میں تنگی اور تقویت پیدا کرتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں میں اس کے استعمال سے خواص ظاہری اور باطنی میں تیزی جب کہ روح ونفس میں نئی حیات پیدا ہو جاتی ہے۔ سردیوں میں غذا کے بعد اخروٹ کا استعمال صحت اور جوانی کے قیام اور بقا کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔