آم   (Mango)

عمومی تعارف:۔

آم موسم گرما کا ایک مشہورو معروف تحفہ ہے۔اہلِ علم کے مطابق آم برصغیر (پاک و ہند) کا سب سے مشہور ترین پھل ہے۔نہایت خوش رنگ، خوش ذائقہ، خوشبودار، اور مزیدار ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے بڑے،چھوٹے، بوڑھے آم کو بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ بہت سے ملک مثلاً سوڈان، برازیل، برما، فلپائن، جاوا، سری لنکا ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، اور عمان میں آم کی کاشت کی جا رہی ہے۔ دنیا کا 75 فیصد آم پاکستان اور ہندوستان میں پیدا کیا جا رہا ہے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ4000سال پہلےآم کی کاشت ہندوستان میں شروع کی گئی تھی۔ ابتدائی دور کی بات کی جائے تو آم کا درخت جنگلی علاقوں میں خوبخود اُگ آتا تھا جس طرح کہ آجکل بھی آم کے درخت جنگلوں میں نظر آتےہیں۔  زمانہ قدیم کے کچھ مصنفین آم کو لنکا کا پھل بتاتے ہیں۔چینی سیاح ہیون سانگ کی کتابوں میں آم کا ذکر دنیا کے مختلف علاقوں میں متعارف کروایا ہے۔ بدھ مت کے مندروں میں آم کا ہونا اس کی بے حد قدامت کی دلیل ہے۔ ہندوں آم کے درخت کو بڑا ہی مقدس مانتے ہیں۔ اس لیے ہندوؤں کے ہاں کوئی بھی تہوار ہو تو وہ آم کے ہار بنا کر پہنتے ہیں۔ ہندو آم کو بہت زیادہ ذہبی رسومات میں بھی استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔

اگر ہم مغلوں کے دور کی بات کریں تو آم مغلوں کے عہد حکومت میں آم کی کاشت اور اس کے مرکبات بنانے کے لیے بے شمار تجربات کئے گئے اور آم کی بے شمار قسمیں متعارف کرائی گئیں۔ مغل خاندان کے ایک بادشاہ ظہیر الدین بابر کے مطابق ہندوستان کے خاص پھلوں میں جانا مانا پھل آم ہے۔ اس میں بہت زیادہ خوشبو ہوتی ہے۔ یہ خوبخود بھی اُگ آتا ہے پر جو خوردو ہوتا ہے اس میں زیادہ مزہ نہیں ہوتا۔ اکبر اعظم نے اپنے دورِ سلطنت میں باغبانی کی طرف خوب توجہ دی۔ اکبر اعظم کو آم اتنا پسند تھا کہ اس نے ایک علاقے میں ایک لاکھ آموں کے درخت لگائے۔ اس لیے ہمارے بڑوں کا کہنا ہے کہ آم بادشاہوں کا پھل ہے اور پھلوں کا بادشاہ آم ہے۔

آم کی اقسام:۔

آم کی بہت سی قسمیں ہیں۔ لیکن اس کی زیادہ مشہور قسمیں قلمی اور تخمی ہیں۔پھر ان میں سے بھی ہر ایک اپنے مزے، شکل وصورت اور مقام پیدائش کے اعتبار سے بھی بے شمار قسموں کا مالک ہوتا ہے۔ تخمی آم کو دیسی آم کہا جاتا ہے۔ جو کہ دیہی علاقوں میں عام پایا جاتا ہے۔ تخمی آم زمانہ قدیم کے جنگلی آموں کی یاد تازہ کرتا ہے۔

قلمی آم حد سے زیادہ مزیدار اور میٹھا ہوتا ہے۔ یہ آم ریشے کے بغیر ہوتا ہے۔ یہ تراش کر کھایا جاتا ہے۔ ان میں کچھ آم میٹھے ہوتے اور کچھ کھٹے میٹھے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ تخمی آم کو دوسرے آموں سے زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں۔ قلمی آم بے شمار قسمیں میں پایا جاتا ہے ۔ ان میں سے چند مشہور قسموں کا ذکر کرتے ہیں۔

چونسہ, لنگڑا, انوررٹول, سرولی, مالدہ, پرنس, سفیددسہری, سیند روریا, فجری گولہ, فجری کلاں, ثریا, بیگم پسند وغیرہ

آم کو استعمال کرنے کا طریقہ:۔

آم اتنا مزیدار پھل ہے  جب دل کرے کھایا جا  سکتاہے۔ لیکن اس کو کھانے کے بعد کھایا جائے تو یہ وقت سب سے بہترین ہوتا ہے۔ دوپہرے کے وقت کھانے کے طور پر آم کو کھایا جا سکتا ہے۔ صبح صبح کچھ کھائے پیئے بغیر آم کو کھانا مناسب نہیں ہے۔ آم کو کھانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کھانے کے بعد اس کو ٹھنڈے پانی میں کچھ وقت کے لیے رکھ لیا جائے اور جب یہ ٹھنڈا ہو جائے ۔ تو اس کو کھایا جائے ۔ آم کو ٹھنڈا کر کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔ آم کو کاٹ کر کھایا جائے یا چوس کر کھایا جائے یہ دونوں طرح سے ہی مزہ دار ہوتا ہے۔ اس پھل کو کھاتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے ۔ کیونکہ یہ پھل بے حد مزہ دار ہونے کی وجہ سے لوگ آم کو اپنی تمنا سے زیادہ کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کا پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔ اور انسان تکلیف میں متبلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو چاہئے کہ آم کو بھوک رکھ کر کھائے۔

آم کو بھگو کر کھایا جائے اگر اس کے ساتھ جامن کا استعمال کیا جائے تو انسان کا معدہ تندرست اور تواناں ہو جائے گا۔آم کے ساتھ دودھ کی لسی اور جام استعمال کیا جائے تو بہت ہی اچھا ہے لوگ آم کھانے کے بعد لسی پیتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ صحت مند اور تندرست ہو جاتے ہیں۔

ہمارے معاشر ے میں بہت زیادہ بچے اور عورتیں کچے آموں کو نمک لگا کربڑے مزے سے کھاتے ہیں ۔ اس طرح آم کو کھانے سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ایسے آم کھانے سے دانت خراب ہوتے ہیں اور کھانسی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ آم کی چٹنی بنا کر کھائی جائے تو انسان کا معدہ خوراک کو جلد ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔جن لوگوں کا مزاج گرم ہوتا ہے تو ان کے لیے آم کھانا بہت ہی مفید ہے۔

آم کے غذائی اور کیمیائی اجزاء:۔

آم میں بہت ہی تعداد میں غذائی اجزاء موجود ہوتےہیں۔ مثلاً نشاستہ، حیاتین، معدنی نمک، مٹھاس اور ریشے فائیبر بے شمار تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ آم میں مٹھاس بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر شوگر کے مریضوں کو آم کھانے سے منع کرتے ہیں۔